رسا نیوز ایجنسی کے سیاسی رپورٹر کے رپورٹ کے مطابق قائد انقلاب اسلامی حضرت آیت الله خامنه ای آج صبح جاپان کے وزیر اعظم آبے شنزو اور اس کے وفد کے ساتھ ملاقات میں تاکید کی : اسلامی جمہوریہ ایران امریکا پر کسی طرح سے اعتماد نہیں کرتا ہے اور جوہری معاہدہ میں امریکہ سے مذاکرات کرنے کے تلخ تجربے موجود ہے جسی کی تکراد نہیں کرے نگے اور کوئی بھی خودمختار اور عاقل قوم دباؤ کے تحت ہرگز مذاکرات نہیں کر سکتی۔
ملاقات کے آغاز میں جاپان کے وزیراعظم آبے شنزو نے رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں عالی جناب کی خدمت میں امریکی صدر کا پیغام پہنچانا چاہتا ہوں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے جاپانی وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ ہمیں آپ کی نیک نیتی اور سنجیدگی میں ذرہ برابر شک نہیں لیکن جو کچھ آپ نے امریکی صدر کے حوالے سے نقل کیا ہے، میں ذاتی طور پر ٹرمپ کو پیغامات کے تبادلے کے لائق ہی نہیں سمجھتا، میں انہیں کوئی جواب نہیں دینا چاہتا اور نہ ہی آئندہ دوں گا۔
حضرت آیت الله خامنه ای نے وضاحت کی : آپ سے جو گفتگو ہوگی اس کا محور جاپان ہے میں جاپان کے وزیر اعظم سے بات کر رہا ہوں کیوں کہ جاپان ایران کا دوست ملک ہے اگر چہ ہمیں جاپان کے بارے میں بھی کچھ شکوے ہیں۔
جاپانی وزیراعظم کی اس بات پر کہ ٹرمپ نے ان سے کہا ہے کہ " امریکہ ایران میں حکومت کی تبدیلی نہیں چاہتا" آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے صراحت کے ساتھ فرمایا کہ امریکہ کے ساتھ ہمارا مسئلہ حکومت کی تبدیلی کا نہیں ہے کیونکہ اگر وہ ایسا کرنے کا ارادہ بھی رکھتے ہوں تو ایسا کرنا ان کے بس میں بھی نہیں، بالکل اسی طرح جیسے سابق امریکی صدور بھی پچھلے چالیس سال کے دوران اسلامی جمہوریہ ایران کی نابودی کی کوشش کرتے رہے لیکن نہیں کر سکے۔
جاپانی وزیراعظم نے ٹرمپ کے اس مؤقف کا حوالہ دیا کہ امریکہ، ایران میں نظام کی تبدیلی نہیں چاہتا، اس کے جواب میں قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ہمارا امریکہ سے مسئلہ نظام کی تبدیلی نہیں، اگر وہ چاہے بھی تو ایسا کرنے کی طاقت نہیں رکھتا جیسا کہ امریکہ کے سابق صدور نے گزشتہ چالیس سالوں میں ایسا کرنے کی سازشیں کیں مگر ان سب کو منہ کی کھانی پڑی۔
قائد اسلامی انقلاب نے مزید فرمایا کہ ٹرمپ کہتا ہے کہ وہ ایران میں نظام کی تبدیلی نہیں چاہتا، جبکہ ایک بڑا جھوٹ ہے کیونکہ اگر وہ چاہتا تو ایسا کرلیتا مگر اس میں دم نہیں ہے۔
جاپانی وزیراعظم کی اس بات پر کہ امریکہ ایران کو ایٹمی ہتھیار بنانے سے روکنے کا اردہ رکھتا ہے، رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا " ہم ایٹمی ہتھیاروں کے مخالف ہیں اور ایٹمی ہتھیاروں کے حرام ہونے کے بارے میں میرا شرعی فتوی بھی موجود ہے، لیکن آپ یہ بات جان لیں کہ اگر ہم ایٹمی ہتھیار بنانا چاہتے تو امریکہ ہمیں نہیں روک سکتا تھا، امریکہ کا اجازت نہ دینا بھی رکاوٹ نہیں بن سکتا تھا۔"
رہبرانقلاب اسلامی نے ایٹمی معاہدے کے حوالے سے امریکہ کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ایٹمی معاہدے کے فوراً بعد جس نے سب سے پہلے معاہدے کی خلاف ورزی کی وہ خود اوباما تھے، وہی شخص جس نے ایران کے ساتھ مذاکرات کی درخواست کی تھی اور کچھ کو وساطت کے لیے بھی بھیجا تھا۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے جاپانی وزیراعظم کی اس بات پر کہ ٹرمپ نے کہا ہے کہ " امریکہ کے ساتھ مذاکرات ایران کی ترقی کا باعث بنیں گے" فرمایا کہ ہم خدا کے فضل سے، امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے بغیر اور پابندیوں کے باوجود بھی ترقی کریں گے۔
آپ نے فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کو امریکہ پر ذرہ برابر اعتماد نہیں، ایٹمی معاہدے کے حوالے سے امریکہ کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کا تجربہ ہرگز دوہرایا نہیں جائے گا کیونکہ کوئی بھی خودمختار اور عاقل قوم دباؤ کے تحت ہرگز مذاکرات نہیں کر سکتی۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ایران کے ساتھ تعلقات کے فروغ سے متعلق جاپانی وزیراعظم کی تجویز کا خیر مقدم کرتے ہوئے فرمایا کہ جاپان، ایشیا کا اہم ملک ہے اور اگر وہ ایران کے ساتھ تعلقات کا فروغ چاہتا ہے تو پھر ٹھوس عزم کا اظہار کرے جیسا کہ بعض دوسرے اہم ممالک اپنا عزم ظاہر کر چکے ہیں۔
جاپان کے وزیراعظم آبے شنزو نے اس ملاقات میں تہران میں ہونے والے مذاکرات کا ذکر کیا اور امید ظاہر کی ان ملاقاتوں کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے درمیان تعاون کا راستہ ہموار ہو گا۔
ایشان با اشاره به دشمنی های چهل ساله امریکا با ملت ایران و ادامه این دشمنی ها، افزودند: ما معتقدیم از طریق مذاکره با امریکا، مشکلات ما حل نخواهد شد و هیچ ملت آزاده ای، مذاکره زیر فشار را قبول نخواهد کرد۔
ایرانی قائد انقلاب اسلامینے جاپانی وزیراعظم کے اس نقطہ نظر سے کہ امریکہ دوسروں پر اپنی خواہشات مسلط کرتا ہے، اتفاق کرتے ہوئے فرمایا کہ امریکی حکمران دوسروں پر اپنی خواہشات مسلط کرنے کی ہر حد پار کرتے ہیں۔
اس ملاقات میں ایران کے صدر جمہور حجت الاسلام حسن روحانی بھی موجود تھے اور آبے شنزو نے تہران میں اپنے مذاکرہ کو امیدا بخش کہتے ہوئے اس گفتگو کو آپسی تعاون میں توسیع کا زمینہ جانا ہے ۔